Ye Zindagi

Zindagi ke parchey me sab sawal mushkil hain, Aur sab sawal Laazim hain..!

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے اپریل 9, 2009

Filed under: قتیل شفائی — somii @ 12:44 صبح
Tags:

یہ معجزہ بھی محبت کبھی دکھائے مجھے
کہ سنگ تجھ پہ گرے اور زخم آئے مجھے
میں اپنے پاؤں تلے روندتا ہوں سائے کو
بدن مرا سہی، دوپہر نہ بھائے مجھے
میں گھر سے تیری تمنا پہن کے جب نکلوں
برہنہ شہر میں ‌کوئی نظر نہ آئے مجھے
وہی تو سب سے زیادہ ہے نکتہ چیں میرا
جو مسکرا کے ہمیشہ گلے لگائے مجھے
وہ میرا دوست ہے سارے جہاں‌کو ہے معلوم
دغا کرے وہ کسی سے تو شرم آئے مجھے
میں اپنی ذات میں نیلام ہورہا ہوں قتیل
غمِ حیات سے کہہ دو خرید لائے مجھے

 

وہ دل ہی کیا جو ترے ملنے کی دعا نہ کرے مارچ 19, 2009

Filed under: قتیل شفائی — somii @ 11:55 صبح
Tags: , , , ,

وہ دل ہی کیا جو ترے ملنے کی دعا نہ کرے
میں تجھ کو بھول کے زندہ رہوں خدا نہ کرے
رہے گا ساتھ ترا پیار زندگی بن کر
یہ اور بات مری زندگی وفا نہ کرے
یہ ٹھیک ھے نہیں مرتا کوئی جدائی میں
خدا کسی سے کسی کو مگر جدا نہ کرے
سنا ہے اس کو محبت دعائیں دیتی ہے
جو دل پہ چوٹ تو کھائے مگر گلہ نہ کرے
زمانہ دیکھ چکا ہے پرکھ چکا ہے اسے
قتیل جان سے جائے پر التجا نہ کرے

 

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی مارچ 17, 2009

Filed under: ناصر کاظمی — somii @ 6:11 شام
Tags: ,

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی

اے دل کسے نصیب یہ توفیقِ اضطراب

ملتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی

تیرے کرم سے اے عالمِ حُسنِ آفریں

دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی

جوشِ جنوں میں درد کی طغیانیوں کے ساتھ

آنکھوں میں ڈھل گئی تیری صورت کبھی کبھی

تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا

گزری ہے مجھ پہ بھی یہ قیامت کبھی کبھی

کچھ اپنا ہوش تھا نہ تمہارا خیال تھا

یوں بھی گزر گئی شبِ فرقت کبھی کبھی

اے دوست ہم نے ترکِ محبت کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

 

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں

Filed under: احمد فراز — somii @ 5:35 شام
Tags: , ,

اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں جاناں
یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں
یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے
کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں
زندگی تیری عطا تھی سو تیرے نام کی ہے
ہم نے جیسے بھی بسر کی تیرا احساں جاناں
دل یہ کہتا ہے کہ شاید ہو فُسردہ تو بھی
دل کی کیا بات کریں دل تو ہے ناداں جاناں
اول اول کی محبت کے نشے یاد تو کر
بے پیئے بھی تیرا چہرہ تھا گلستاں جاناں
آخر آخر تو یہ عالم ہے کہ اب ہوش نہیں
رگِ مینا سلگ اٹھی کہ رگِ جاں جاناں
مدتوں سے یہی عالم نہ توقع نہ امید
دل پکارے ہی چلا جاتا ہے جانا! جاناں !
اب کے کچھ ایسی سجی محفل یاراں جانا
سر بہ زانوں ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں
ہر کوئی اپنی ہی آواز سے کانپ اٹھتا ہے
ہر کوئی اپنے ہی سایے سے ہراساں جاناں
جس کو دیکھو وہ ہی زنجیز بپا لگتا ہے
شہر کا شہر ہوا داخل ہوا زِنداں جاناں
ہم بھی کیا سادہ تھےہم نےبھی سمجھ رکھاتھا
غمِ دوراں سے جدا ہے غمِ جاناں جاناں
ہم، کہ روٹھی ہوی رُت کو بھی منالیتےتھے
ہم نے دیکھا ہی نہ تھا موسم ہجراں جاناں
ہوش آیا تو سب ہی خاک تھے ریزہ ریزہ
جیسے اُڑتے ہوئے اُوراقِ پریشاں جاناں